the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے


 ٭    دنیا میں خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کے سروے کے مطابق ایک سو ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین کو بعض کام کرنے سے محض اس لئے روک دیا جاتا ہے کہ وہ خاتون ہیں، ایک سو پچاس سے زائد ایسے ممالک ہیں جہاں کم از کم ایک قانون ایسا موجود ہے جس کے تحت خواتین سے امتیاز برتا جارہا ہے اور صرف 18 ممالک ایسے ہیں جہاں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس سے خواتین کو کوئی نقصان پہونچتا ہو یا اُن کیلئے وہ کوئی روکاٹ بنتا ہو ۔ خواتین کے حقوق سے متعلق تنظیموں کا احساس ہے کہ قانونی رکاوٹوں اور پابندیوں کی وجہ سے خواتین مکمل طور پر معاشی ترقی نہیں کرپارہی ہیں ۔ ورلڈ بینک کے گروپ کی خواتین بزنس اور قانون کے حوالہ سے کی گئی تحقیق کے مطابق دنیا میں 32 ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین مردوں کی طرح پاسپورٹ کے حصول کیلئے درخواستیں نہیں دے سکتیں اور 18 ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین ایسی صورت میں ملازمت نہیں کرسکتیں جبکہ ان کے شوہر کا یہ احساس ہے کہ اس کا نوکری کرنا خاندان کے مفاد میں نہیں ہے، ایسے ممالک میں اردن اور ایران شامل ہیں 59 ممالک ایسے ہیں جہاں کام کے مقامات پر جنسی استحصال کی روک تھام کیلئے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ برما ، ازبکستان اور آرمینیا ایسے 46 ممالک میں شامل ہیں جہاں گھریلو تشدد کے خلاف کوئی قانونی تحفظ موجود نہیں ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جنسی بھیدبھاو اور جنسی استحصال کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار دھیمی اور غربت کے خاتمہ کی جدوجہد ادھوری ہے ۔ ایسے ممالک معاشی طور پر کمزور ہیں جہاں خواتین سے بھید بھاو کرنے والے قوانین موجود ہیں اور جنسی مساوات کے فروغ کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں ورلڈ بنک کی پچھلی



رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ میں لیبر فورس اور صنعتوں میںجنسی امتیاز کی وجہ سے آمدنی میں 27 فیصد کا نقصان ہوا ہے ۔ جنوبی ایشیاء میں اسی وجہ سے 19 فیصد لاطینی امریکہ میں 14 فیصد اور یوروپ میں 10 فیصد نقصان ہوا ۔ یہ ایسے نقصانات ہیں جن کی بیشتر ممالک خاص کر وہ ممالک تاب نہیں لاسکتے جہاں بہت زیادہ غربت ہے ۔ رپورٹ میں بنگلہ دیش کی تعریف کی گئی کہ وہاں ورک فورس میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور اندازہ ظاہر کیا گیا کہ بنگلہ دیش میں آئندہ دس برسوں میں خاتون ورک فورس 34 فیصد سے بڑھ کر 82 فیصد ہوجائے گی ۔ 1990 ء کی دہائی میں چند ہی ممالک تھے جہاں خواتین کو تشدد سے بچانے کیلئے قوانین موجود تھے اب 127 ممالک میں اس تعلق سے کسی قدر قانون سازی کی گئی وہ بھی محض اس وجہ سے کہ دنیا واقف ہورہی ہے کہ خواتین سے بدسلوکی اور ناانصافی کی وجہ سے معاشی ترقی رک رہی ہے اور انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں خواتین کے روزگار کی پرزور وکالت ہوتی ہے لیکن خواتین کاکام کے مقامات پر تحفظ ہنوز ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ جو ادارے اور تنظیمیں خواتین کی آزادی اور ان کے روزگار سے جڑنے اور گھروں سے باہر نکلنے کی پرزور وکالت کرتی ہیں ۔ وہ دنیا بھر میں گھر سے کارگاہ تک جانے آنے کے دوران اور کام کے مقامات پر خواتین کے جنسی استحصال کے شرمناک واقعات پر جانتے بوجھتے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ایسی تنظیمیں اس حقیقت کو بھی فراموش کررہی ہیں کہ خواتین کے گھر پر نہ ہونے سے بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کی ذمہ داری کوئی نہیں نبھارہا ہے جس کے نتیجہ میں نئی نسل اخلاقی اقدار اور کردار کے بحران سے دوچار ہے ۔(یو این این)
عارف عزیر(بھوپال)
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.